بہار کا سیاسی منظر ہمیشہ ہی فرقہ وارانہ رہا ہے، جہاں علاقوں کو مسلم ، یادو اور دیگر اقلیتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے ہی سے ریاست میں کووڈ-19 اور اس کے بعد سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ دوسری طرف اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کے داخلے نے ریاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے کچھ پہلے ہی ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
حیدرآباد کے رکن پارلیمان اسمبلی اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیار ہے۔
پارٹی نے جون میں اپنی شرکت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ 32 نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔
یہ امیدوار ریاست کے دیگر 6 اضلاع کے علاوہ کٹہار، پورنیا، دربھنگا، سمستی پور، پٹنہ، بلرام پور، باری، امور، بسی، جوکیہت، مہوبہ، بتیا، رام نگر، ڈھاکہ، پریہار اور اورنگ آباد میں اس کا مقابلہ کریں گے۔
اویسی کی نگاہ سیمانچل پر ہے۔ جو راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس کا مضبوط گڑھ ہے ۔جہاں وہ اے آئی ایم آئی ایم کی موجودگی چاہتے ہیں۔ اسد نے خاص طور پرمسلم اکثریتی علاقوں ارریہ ، کشن گنج ، پورنیا اور کٹیہار میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پارٹی نے ان علاقوں میں مسلم آبادی کی بنیاد پر نشستیں الگ کرلی ہیں جو اسے اے پلس ، اے اور بی تھری درجہ دیتی ہے۔
جن سیٹوں پر مسلم ووٹر 32 فیصد سے زیادہ ہے اسے اے پلس نشان لگا دیا گیا ہے ، 15 سے 20 فیصد آبادی کو بی گریڈ میں رکھا گیا ہے اور ایسی 16 نشستیں ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم نے 2019 کے ضمنی انتخابات میں اپنی پہلی کامیابی کشن گنج سے قمرالہدا کے جیت کے ساتھ درج کرائی ہے۔
اگرچہ اس پارٹی پر سیماچل خطے میں محدود رہنے اور سیکولر ووٹوں کو ضائع کرنے کا الزام ہے، لیکن کیا پارٹی بہار میں اس بار آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگی، یہ دیکھنا باقی ہے۔